مکاتیا رشیدیہ میں حضرت رشید احمد گوہیہی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ کو
لکھا ہے وہ درج ہے فضائل صدقات میں مکاتیا رشیدیہ سے وہ نقل کرنے میں
کچھ لفظی خطا ہوگئی اور آپ کے شیخ واستاد بغض اہل السنۃ میں ہر وقت جلتے رہنے والے
زئی صاحب کی ہرزہ سرائی ملاحظہ فرمائیں:
’’دیوبندی مذہب کے تیسرے بڑے امام رشید احمد گوہیہی صاحب لکھتے
ہیں:یا اللہ معاف فرمانا کہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہوا ہے جھوٹا ہوں کچھ نہیں تیراہی
میں اور توخود شرک درشرک ہے استغفراللہ۔۔۔۔۔‘‘
] ]فضائل صدقات حصہ دوم ص 550 وللفظ لہ مکاتیب رش یدیہ ص 18
اس عبارت میں گوہیہی صاحب نے صاف صاف یہ عقیدہ بیان کیا ہے کہ یا
اللہ۔۔۔۔۔اور وہ جو میں ]یعنی گوہیہی[ہوں وہ تو]یعنی اللہ[ہے اور میں اور تو]کہنا[خود
شرک در شرک ہے۔معلوم ہوا گوہیہی صاحب اپنے آپ کو خدا سمجھتے تھے۔
] ]مکی لات ج 1ص 282
جناب اپنے مکی لات]مقالات[میں کس قدر تحریف کی بین القوسین الفاظ
زبیر صاحب کےتحریر کردہ ہیں جو اپنے خبث باطن کی تسکین اور اپنے خود نوشتہ کتبے کو
دلیل فراہم کرنے کے لیے جناب نے لکھے ہیں اور اصل عبارت سے جو مکاتیا رشیدیہ
میں موجود ہے اس سے جناب کی خیانت اور الزام تراشی کا بھانڈا پھوٹ جانا تھا اس لیے
فضائل صدقات کے غلطی سے لکھے گئے الفاظ نقل کرکے واللفظ لہ کہہ دیا جناب کیا
ب کے ہوتے ہوئے بھی نقل کی خطا پر اپنے موقف آپ کی تحقیق یہی ہے کہ اصل
کی بنیاد رکھو اب آئیے مکاتیا رشیدیہ کی اصل عبارت کی طرف۔
یااللہ معاف فرمانا۔۔۔۔۔اور وہ جو میں ]بر ع می ا اردو ت ص 2272 [ہے وہ تو ہے
اور میں ]بر ع[اور تو]اللہ[خود شرک در شرک ہے استغفراللہ
اب اصل عبارت’’میں ہے‘‘کو فضائل صدقات میں’’میں ہوں‘‘سے بدل
دیا گیا تو جناب کو غوغا آرائی کا بہانہ مل گیا۔ویسے آپ زئی صاحب سے ذراپوچھیں تو صحیح
اگر بغض امام اعظم رحمہ اللہ کی وجہ سے عقل ماری نہیں گئی تو کیا بتانا پسند کریں گے کہ
جب گوہیہی صاحب خود کو خداسمجھ رہے ہیں تو پھر استغفار کس سے کررہے ہیں؟جیچاہتاہے آپ کے الفاظ آپ ہی پر لوٹا دوں کہ کیا اہل حدیثوں میں کوئی ایسا نہیں جو زبیر
زئی صاحب کو سمجھائے کہ اپنی اوقات سے باہر پاوں نہ پھیلائیں
]الحدیث ش 77 ص 11،12 مع تغیر یسیر[
جناب زبیر صاحب !آپ اپنے استاد سے پوچھیں کہ مکاتیا رشیدیہ والی
عبارت کیا سمجھ کر ہضم کرگئے تھے پھر شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے بارے میں بات کرنا